پیدرو آروپے- ایک عظیم یسوعی کی سوانح حیات
پیدرو آروپے ایس جے یسوعی سماج کے 28ویں اعلیٰ جنرل تھے، جو پوسٹ ویٹیکن 2 میں گرجاگھر اور لوگوں کی خدمت کرنے کے لئے یسوعی سماج کی سربراہی کر رہے تھے۔ آروپے عظیم روحانی گہرائی سے بھرے ایک ایسی شخصیت تھے جو انصاف کے پابند تھے۔
ابتدائی سال
آروپے 1907 میں اسپین کے باسکی خطے میں پیدا ہوئے۔ طبّی تربیت کے کچھ سالوں بعد آروپے 1927 میں یسوعیوں میں داخل ہوئے۔ 1932 میں جمہوریت پسند ہسپانوی گورمنٹ نے یسوعیوں کو اسپین سے نکال دیا۔ آروپے نے اپنی تعلیم بیلجیم، ہولینڈ اور امریکا میں جاری رکھی۔ مقرر ہونے کے بعد ایف آر آروپے کو 1938 میں جاپان بھیج دیا گیا۔ ان کو یہ امید تھی کہ وہ وہاں اپنی ساری زندگی مشنری کے طور پر گزار دینگے۔
گرفتاری اور قید
7 دسمبر 1941 کے پرل ہاربر کے دھماکے کے بعد جاپانی حفاظتی افواج نے آروپے کو جاسوسی کے شک کی بنا پر گرفتار کر لیا۔ اُنہیں اکیلے قید میں رکھا گیا۔ آروپے نے اپنے مقدمے کے خاتمے کے انتظار کے دوران اپنی تنگی اور غیر یقینی صورت حال کو بیان کیا۔ انہوں نے سب سے زیادہ عشائے ربانی کی مسیحی رسم (یوخرسٹ) کی کمی محسوس کی۔ اپنے مصائب کے دوران آروپے نے ایک خاص افضل لمہے کا تجربہ حاصل کیا۔ 1941 کی کرسمس کی رات آروپے نے اپنے قید خانے کے دروازے کے باہر لوگوں کا ایک مجمع اکٹھے ہوتے سنا۔ وہ اس مجمع کو دیکھ نا سکے اور یہ سوچنے لگے کہ کہیں ان کی پھانسی کا وقت قریب تو نہیں آ گیا۔
- اچانک اس گنگناہٹ سے اونچی ایک نرم، پیاری اور دلاسا دینے والی آواز میں کرسمس کیرل کی گونج اٹھی، ایک ایسا گیت جو میں نے خود اپنے مسیحی لوگوں کو سکھایا تھا۔ میں اپنے آپ کو سمبھال نا سکا۔ میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ وہ میرے مسیحی لوگ تھے جو اپنے قید ہو جانے کے خطرے کی پروا کیئے بغیر مجھے دلاسا دینے آگئے۔ جنہوں نے جلد ہی کرسمس کے جشن کے دوران مذبح پر اترنا تھا۔
گیت کے کچھ منٹوں بعد آروپے نے یسوع کی موجودگی محسوس کی، اُنہوں نے کہا: “مجھے ایسا محسوس ہوأ کہ وہ میرے دل میں بھی اتر گئے، اور اس رات میں نے اپنی زندگی کا سب سے بہترین روحانی اشتراک حاصل کیا”۔
جب 33 دنوں بعد حفاظتی افواج انہیں قید سے رہا کرنے آئے، آروپے کو اس بات پر یقین تھا کہ وہ انہیں سزائے موت دینے آ رہے ہیں۔ قید کے تجربے نے انہیں سکون سے بھر دیا جو انہیں خُدا پر بنیادی یقین رکھنے میں ملا تھا۔
ہیرو شیما، 6 اگست 1945
آروپے ہیروشیما کے مضافات میں موجود ناگتسوکا آگئے، جہاں انہوں نے جاپانی مشن کے لئے مبتدی کے ماہر کے طور پر اپنے فرائض کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا۔ 6 اگست 1945 کو انہوں نے سائرن کے گونجنے کی آواز سنی جب ایک امریکی B-29 بمبار طیارہ شہر کے اوپر سے گزرا۔ انہوں نے اس بارے میں اتنا نہیں سوچا اور خیریت کا سائرن سننے کی امید لگائی۔ لیکن اس کے بجائے انہوں نے ایک بہت بڑے دھماکے کی آواز سنی اور اس کا اثر محسوس کیا جس نے ان کی رہائش گاہ کے دروازوں اور کھڑکیوں کو بھی توڑ دیا۔
جیسے ہی وہ باہر آئے، آروپے اور ان کے ساتھیوں نے ایٹم بم سے ہوئی 200,000 ہلاکتوں کا پہلا شکار دیکھا۔ پہاڑی پر چڑھتے ہوئے انہوں نے ہیروشیما شہر کو بڑے پیمانے پر شعلوں میں بدلتے دیکھا۔
زخمیوں کی وزارت
آروپے نے اپنے طبی تجربے کے ذریعے زیادہ سے زیادہ زخمیوں کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ اور ان کے ساتھی 150 متاثرین کی مدد کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ایٹمی تابکاریوں کے خطرے کے بارے میں کچھ نا جاننے کے نتیجے میں وہ کئی ایسے لوگوں کی موت دیکھ کر مضطرب اور پریشان ہوگئے جنہیں کوئی بیرونی زخم نہیں آئے تھے۔ آروپے اور ان کے ساتھیوں کے پاس صرف بنیادی خوراک اور طبی اشیاء موجود تھیں اور انہیں بغیر کسی مخدر یا جدید ادویات کے لوگوں کی دیکھ بھال کرنی پڑی۔
غریبوں کے دل کی دریافت
لاطینی امریکہ کے یسوعی صوبے کا دورہ کرتے ہوئے پیدرو آروپے نے مضافات میں موجود کچی آبادی میں عشائے ربانی کا جشن منایا، جس خطے میں سب سے زیادہ غربت تھی۔ جس توجہ اور عزت سے وہاں کے لوگوں نے یہ جشن منایا، اس سے آروپے بہت متاثر ہوئے۔ عمل اشتراک کرتے ہوئے اور ابلاغیوں کے چہروں پر آنسو بہتا دیکھ ان کے ہاتھ کانپنے لگے۔
بعد میں ایک خاص لمبے آدمی نے آروپے کو اپنے گھر دعوت دی۔ اس آدمی کا گھر خستہ اور کچا تھا۔ اس آدمی نے انہیں ایک کمزور سی کرسی پر بٹھایا اور ایف آر آروپے کو اپنے ساتھ سورج غروب ہوتا دیکھنے کی دعوت دی۔ سورج غروب ہونے کے بعد اس نے یہ واضح کیا کہ سماج میں آروپے کی خدمات کے لئے وہ کتنا شکرگزار ہے۔ وہ اپنا اکلوتا تحفہ بانٹنا چاہتا تھا جو سورج کے غروب ہونے کا خوبصورت منظر تھا۔
آروپے کا کہنا ہے: “اس نے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا۔ جیسے ہی میں وہاں سے جا رہا تھا، مجھے خیال آیا: میں نے بہت کم ایسے دلوں سے ملاقات کی ہے جو اتنے زیادہ رحم دل ہوتے ہیں”۔
یسوعیوں کے اعلیٰ جنرل
پیدرو آروپے اس وقت جاپانی یسوعی صوبہ کے اعلیٰ کے طور پر خدمت کر رہے تھے جب 1965 میں انہیں یسوعی سماج کا اعلیٰ جنرل مقرر کیا گیا۔ انہوں نے یہ عہدہ 1983 تک سنبھالا۔
اٹھائسویں اعلیٰ یا “پادری جنرل” ہونے کے نتیجے میں ویٹیکنII سے ہونے والی تبدیلیوں کے دوران سماج کی رہنمائی کرنے کا کام آروپے کا تھا۔ ان کی توجہ سب سے زیادہ اس بات پر تھی کہ یسوعی غریبوں کی ضروریات کی دیکھ بھال کرنے کا عہد کریں۔ ان کی خدمت کے نتیجے 1975 میں 32ویں جنرل کانگریگیشن کی ‘ہمارا آج کا مشن: ایمان کی خدمت’ اور ‘انصاف کی ترقی’ کے احکام عمل میں آئے۔ اس کی وجہ سے یسوعیوں کو، خاص طور پر لاطینی امریکہ میں، غریبوں کے ساتھ عملی طور پر کام کرنے کا موقع ملا۔ ان کو دھمکیاں دی گئیں، جن کی وجہ سے 1989 میں ایل سلواڈور میں چھے پادری ہلاک کردیئے گئے، اس کے باوجود یسوعیوں نے آروپے کے زیرینگرانی غریبوں کے ساتھ انصاف کا کام جاری رکھا۔
آروپے کے انصاف پر ایمان نے یسوعی تعلیم کے مقصد کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا:
- آج ہمارا بنیادی تعلیمی مقصد مردوں اور عورتوں کو دوسروں کے لئے جینا سکھانا ہے۔ وہ مرد و عورت جو اپنے لئے نہیں بلکہ خُدا اور اس کے مسیح کے لئے زندگی گزاریں گے۔ ان انسانوں کے لئے جو دنیا کے لئے جیئے اور مر گئے۔ وہ مرد و عورت جو خُدا کی محبت کا تصور بھی نہیں کر سکتے جن میں کم از کم ان کے پڑوسیوں کے لئے بھی محبت شامل نہیں۔ وہ مرد و عورت جن کو خُدا کی محبت حاصل کرنے میں امید ہے لیکن وہ دوسروں کے ساتھ انصاف نہیں کرتے، تو یہ ان کا وہم ہے۔
فالج اور استعفیٰ
1981 میں آروپے ایک مضمحل کردہ فالج کا شکار ہوگئے۔ پوپ جان پال 2 کے ایک مقرر کردہ نے 1983 تک عبوری اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا، پھر آروپے کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا۔ ان کو ویل چیئر کی مدد سے 33ویں جنرل کانگریگیشن کے شروعاتی نشست میں لے جایا گیا، اور آروپے کی آخری دعا سماج کو سنائی گئی۔
- پہلے سے کئی زیادہ میں اپنے آپ کو خُدا کے ہاتھوں میں دیکھ رہا ہوں۔ اپنی جوانی سے میری پوری زندگی یہ ہی خواہش رہی ہے۔ لیکن اب ایک فرق ہے۔ اب یہ مکمل طور پر خُدا کے ساتھ ہے۔ یہ واقعی ایک گہرا روحانی تجربہ ہے کہ میں اپنے آپ کو مکمل طور پر خُدا کے ہاتھوں میں محسوس کر رہا ہوں۔
ایف آر پیدرو آروپے کی وفات 5 فروری 1991 کو ہوئی۔ ان کی وفات کے دن یسوعی اعلیٰ جنرل کے طور پر ان کے جانشین ریو پیٹر-ہنس کو لونباک نے پادری آروپے کے بارے میں کہا: “گہرے ایمان کا اجاگر کردہ ان کے بنیادی رجائیت نے انہیں ایک مثال بنا دیا جس نے دنیا کے ہر کونے کے بے شمار مردوں اور عورتوں میں محبت اور مداح کا جذبہ پیدا کیا”۔