September 8, 2024

English اردو

پاکستان کے توہین رسالت قانون پر ایک مختصر نظر

پاکستان کے توہین رسالت قانون پر ایک مختصر نظر Urdu Christian Media Pakistan

کیا کہتے ہیں یہ قوانین؟

دفعہ 295 – کسی مذہب کی توہین کی نیت سے عبادت گاہوں کی بےحرمتی کرنا. 2 سال قید کی سزا یا جرمانہ یا دونوں۔

دفعہ 295 اے – کسی بھی طبقے کے مذہبی عقائد کی جان بوجھ کر اور بدنیتی سے توہین یا بےحرمتی کرنا. 10 سال قید کی سزا یا جرمانہ یا دونوں۔

دفعہ 295 بی – قرآن کی بے حرمتی کرنا. سزا عمر قید۔

دفعہ 295 سی – پیغمبر اسلام کے خلاف تضحیک آمیز جملے استعمال کرنا، خواہ الفاظ میں، خواہ بول کر، خواہ تحریری، خواہ ظاہری شباہت/پیشکش، یا ان کے بارے میں غیر ایماندارنہ براہ راست یا بالواسطہ بیان دینا جس سے ان کے بارے میں بُرا، خود غرض یا سخت تاثر پیدا ہو، یا ان کے رتبے کو چوٹ پہنچانے والا تاثر ہو، یا ان کے نام کے بارے میں شکوک و شبہات و تضحیک پیدا ہو. ان سب کی سزا عمر قید یا موت اور ساتھ میں جرمانہ۔

اس قانون کے متاثرین کون ہیں؟

تنقید نگار کہتے ہیں کہ توہین رسالت کے زیادہ تر مقدمات کے حقائق کو دیکھا جائے تو یہ صاف واضح ہو جاتا ہے کہ اس قانون کو مسیحیوں پر ناجائز طور پر لاگو کیا جاتا رہا ہے. پاکستان میں زیادہ تر مواقع پر اس قانون کو صرف اپنے نجی معاملات کو سلجھانے کے لیے مسیحیوں پر لاگو کیا جاتا رہا ہے جبکہ حقیقت میں ان الزامات کا مذہب یا اس کی توہین سے کوئی ناطہ نہیں ہوتا ہے۔

توہین رسالت کا الزام کسی کو سخت سزا دلوانے کے لیے کافی ہوتا ہے نہ صرف ان کو جن پر اسلام، پیغمبر اسلام یا قرآن کی بے حرمتی کا الزام ہو بلکہ ان پر بھی جو توہین رسالت کے ملزم کی حمایت کریں یا اس قانون میں بدلاؤ کی مانگ کریں۔

کیا پاکستانیوں کی اکثریت اس قانون کی حمایت کرتی ہے؟

پاکستانیوں کی بڑی اکثریت اس نظریے کے حق میں ہے کہ مذہب اور رسول کے خلاف گستاخی کرنے والوں کو سزا لازمی ملنی چاہیے، ان کے مطابق یہ ضروری نہیں کے جدید دور کے قانون کیا کہتے ہیں بلکہ جو ضروری ہے وہ یہ کہ قرآن اس بارے میں کیا کہتا ہے اور ہر حال میں قرآن کے حکم کو مانا جانا چاہیے۔

اگرچہ اس قانون کو پاکستان میں 1980 میں جرنل زیاالحق کی فوجی حکومت کے دور میں نافذ کیا گیا تھا لیکن بہت سے لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ قانون قرآن کا قانون ہے اور اس کو انسان نے نہیں بنایا ہے۔

حکومت اس قانون میں کیوں کوئی تبدیلی نہیں لاتی ہے؟

تمام سیکولر سیاسی پارٹیاں توہین رسالت کے قانون کو تبدیل کرنے کے لیے اپنا ایجنڈا پیش کر چکی ہیں، لیکن ابھی تک کسی بھی پارٹی کو ان حساس معاملوں پر کوئی مثبت نتیجہ نکلتا نظر نہیں آ رہا ہے کیونکہ کوئی بھی بڑی سیاسی پارٹی کسی مذہبی پارٹی سے دشمنی نہیں لینا چاہتی ہے۔

سال 2010 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن شیریں رحمان نے توہین رسالت کے قانون میں تبدیلی کے لیے ایک بل پیش کیا تھا. ان کا یہ بل مذہبی جرائم کے معاملات کے عمل میں تبدیلی کے لیے پیش کیا گیا تھا. وہ چاہتی تھیں کہ توہین رسالت کا معاملہ اعلیٰ پولیس احکام کے پاس درج کرایا جائے اور اس مقدمے کی سنوائی سیدھے ہائی کورٹ میں ہو اور وہ ہی ان حساس مقدمات کا فیصلہ کریں۔

ان کا یہ بل نظرثانی کے لیے پارلیمانی کمیٹی کو پیش کیا جاتا، اس سے پہلے ہی فروری 2011 میں مذہبی اور سیاسی پارٹیوں کے دباؤ کی وجہ سے اسے خارج کر دیا گیا۔

RELATED ARTICLES