مارچ 2013، لاہور کے علاقہ جوزف کالونی میں 125 سے زائد گھروں کو جلا دیا گیا، دو گرجاگھروں اور درجنوں انجیلوں کی بے حرمتی کی گئی. اس ساری تباہ کاری کی وجہ ہمیشہ کی طرح مسیحیوں پر توہین رسالت کا الزام تھا۔
3000 سے زاید مسلمانوں نے مل کر مسیحیوں کی رہائش گاہ جوزف کالونی پر حملہ کیا جن کا یہ کہنا تھا کہ ساون مسیح نامی لڑکے نے جو اس کالونی کا رہائشی تھا، اسلام کے پیغمبر کی شان میں گستاخی کی ہے. انہوں نے اس ایک لڑکے کا غصہ تمام کالونی، مسیحی کتابوں، اور گرجاگھروں کو جلا کر نکالا. بہت کوشش کے بعد ان 3000 میں سے صرف 150 کو گرفتار کیا گیا تھا.
4 سال کے طویل عرصے تک ان پر مقدمہ چلانے کے بعد آخرکار ان سب کو پاکستان کی عدلیہ نے بری کر دیا. آج وہ 150 لوگ آزادی سے زندگی بسر کر رہے ہیں. کیا پاکستان میں مسیحیوں پر ظلم کرنے والوں کے لیے کوئی سزا نہیں ہے؟ کیا ان لوگوں کو رہائی دے کر دوسرے تشدّد پسند لوگوں کو حوصلہ افزائی نہیں دی جا رہی ہے؟ کیا مسیحیوں کے خون کی کوئی قیمت نہیں ہے؟ مسیحی کب تک پاکستان میں اس طرح گھٹ گھٹ کر زندگیاں گزارنے کے لئے مجبور رہینگے؟
کب تک توہین رسالت کا قانون مسیحیوں کی جانیں لینے کے لیے استعمال کیا جاتا رہے گا؟ مسیحیوں کے سوالوں کا جواب کون دیگا؟ مسیحیوں کے آنسوؤں کا حساب کون دیگا؟ ان ماں باپ کے درد کو کون کم کریگا جو اپنے بے قصور بچوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے لاچاری سے مرتے دیکھنے کو مجبور ہوتے ہیں؟ کیا پاکستان کی حکومت اور عدلیہ مسیحیوں کو انصاف دلانے میں ناکام ہو چکی ہے؟ اب پاکستان کی حکومت، عدلیہ اور معاشرے سے تو کوئی امید باقی رہی نہیں تو صرف اپنے زندہ خداوند یسوع مسیح سے ہی التجا کرتے ہیں کہ اے خدا ہماری مدد فرما. آمین!