البیرتو عُرتادو کروچاگا 22 جنوری 1901 میں چلی کے شہر ونیا دِیل مار میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد کی وفات کے بعد جب البیرتو صرف چار سال کے تھے، اُن کی ماں کو نقصان اُٹھاتے ہوئے خاندانی قرض ادا کرنے کے لئے اپنی جائیداد بیچنی پڑی۔ اِس کا مزید نتیجہ یہ ہوأ کہ البیرتو اور اُن کے بھائی کو مجبوری کے طور پر اپنے رشتے داروں کے ساتھ رہنا پڑا اور اکثر اُن کو ایک رشتے دار سے دوسرے رشتے دار، گھر بدلنے پڑتے تھے۔ ابتدائی عمر سے ہی، اُنہیں اِس بات کا تجربہ ہو گیا تھا کہ گھر کے بغیر غربت کی زندگی کیا ہوتی ہے۔
اُنہیں ایک اسکالرشپ ملی جس کے ذریعے اُنہیں 1909 سے 1917 تک سینٹ-اگناسیو کے اسکول “آل بوائز جیزویٹ اسکول” میں پڑھنے کا موقع ملا جو کہ سنتیاگو میں ہے۔ اِس سب کے دوران اُنہیں رضاکارانہ طور پر، “دی پاروقیہ نویستراسی نورا دی انداکیولو” نامی جگہ، ایک کیتھولک پیرش اور سنتیاگو کے قریبی غریب علاقے کے اسکول میں بھیجا گیا۔ وہ وہاں دفتر میں مدد کرواتے تھے اور وہ محافظِ کتبخانہ بھی تھے۔
1918 سے 1923 تک، اُنہوں نے “دی پونٹیفیکا یونیورسٹی کیتھولک چلی” میں شرکت کی، اُنہوں نے وہاں کے قانونی اسکول میں تعلیم حاصل کی اور مزدوروں کے قانون پر اپنے تھیسس لکھے اور اپنی ڈگری اگست 1923 میں حاصل کی۔
بلکہ اِس کے بعد قانونی پیشہ اختیار کرتے ہوئے، عُرتادو 1923 میں “جیزویٹ نویشیٹ” میں داخل ہوئے۔ 1925 میں وہ کارڈوبا، آرجنٹینا گئے جہاں پر اُنہوں نے انسانیت کی تعلیم کا مطالعہ کیا۔
1927 میں اُن کو سپین کے ایک شہر بارسیلونا میں بھیجا گیا تاکہ وہ وہاں پر فلسفانہ اور نظریاتی تعلیم حاصل کریں، لیکن کیونکہ سپین میں جیزویٹ کے دباؤ پر 1931 میں اُنہیں بیلجیم جانا پڑا اور لوواعین میں اُنہوں نے اپنے نظریات پر تعلیم جاری رکھی۔ 24 اگست 1933 میں اُن کو وہاں پر پادری مقرر کیا گیا، اور 1935 میں اُنہوں نے تدریس اور نفسیاتی تعلیم میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
شروع کے دنوں میں مزدوروں کے قانون کی تعلیم حاصل کرنے سے پہلے، اور ایک جزویٹ بننے سے پہلے، عُرتادو نے اپنا ذہن معاشرتی مسائل اور مشکلات سے نمٹنے کے لئے طیار کیا ہوأ تھا۔
جنوری 1936 میں وہ چلی شہر میں واپس آگئے، اور مذہب کے معلم کے طور پر اُنہوں نے “مقدس اگناسیو کالج” میں اور تدریس کے معلم کے طور پر اُنہوں نے سنتیاگو کی “کیتھولک یونیورسٹی” میں کام کرنا شروع کر دیا۔ اُنہیں آور لیڈی فار سٹوڈنٹز کی انجمن کے ساتھ دلچسپی تھی اور اُنہوں نے اُنہیں غریبوں کو مسیحی تعلیم دینے میں شامل کیا۔
اُس وقت چلی میں معاشرتی طور پر کافی عدم مساوات تھی اور وہاں پر قدامت پرست کیتھولک لوگوں کو ویٹیکن کی معاشرتی تعلیم کو قبول کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔
1936 میں اُنہوں نے چلی میں “دی پریسٹ ہوڈ کرائیسس” ( چلی میں پادریوں کا بحران ) نامی ایک مضمون لکھا، جس نے چلی میں پادریوں کے بحران کا پیغام دیا۔ اُنہوں نے چلی میں مسیحی تعلیم کی ہدایات کو پیش کرنے کی سطح پر تنقید کی، اور اُنہوں نے یہ بھی لکھا کہ نوجوان مسیحی تعلیم کے طلبہ کے طور پر اِس میں شامل تو ہوتے ہیں لیکن اُنہیں ضروری سرٹیفیکیٹ کی کمی کا سامنا کرنا پڑھتا ہے۔
1940 میں وہ “کیتھولک ایکشن یوتھ موومنٹ” کے ڈیوسیسن ڈائریکٹر بنے اور اُس کے اگلے سال ہی وہ اُس کے نیشنل ڈائریکٹر بن گئے۔ اُسی سال 1941 میں عُرتادو کے سماجیات پر مبنی ذہن نے اُن کی سربراہی کی کہ وہ ایک کتاب لکھیں جس کا نام ”کیا چلی ایک کیتھولک ملک ہے؟” جس نے محنت کش طبقے اور دیہی آبادی میں پادریوں کی کمی کے اعداد و شمار کو شائع کیا، جس میں یہ تفصیلات بھی شامل تھیں کہ ایک پادری کے لئے دس ہزار لوگوں کو مخصوص کیا گیا جس نے ایک بڑے جغرافیائی علاقے کو گھیرے میں لیا۔
خود کے علاقوں کو اُنہوں نے ذہن میں رکھا، اور اُنہیں اور اُن کے خاندان کو مدد حاصل ہونے پر وہ خوش تھے جب وہ مشکل میں تھے، عُرتادو نے ایک عملی سماجی شمولیت کی رہنمائی کی۔ اُن کا مضبوط ایمان عمل میں تبدیل ہوأ کہ اُنہوں نے ایک تنظیم بنائی جس کے وہ بانی تھے جس کا نام اوگار دے کرستو ( مسیح کا گھر ) تھا اُس میں اُن تمام بچوں کو رہنے کے لئے جگہ ملی جنہیں کھانا اور پناہ کی ضرورت تھی۔ اُنہوں نے 1946 میں ہرے رنگ کا ٹرک خریدہ اور اُس پر وہ رات کے وقت سڑکوں پر پھرتے ہوئے اُن لوگوں کو ڈھونڈتے جن تک پہنچ پاتے جو ضرورت مندہ ہوتے۔ اُن کی خدمت کی وجہ سے اُنہیں کئی شراکت دار اور فائدہ مند لوگ ملے، تو اُن کی یہ تحریک بہت کامیاب ہوئی۔ یہ پناہ گاہیں پورے ملک میں پھیل گئیں۔ یہ اندازا لگایا گیا کہ 1945 سے 1951 تک تقریباً 850,000 سے زائد بچوں نے اِس تحریک سے مدد حاصل کی۔
1947 میں، عُرتادو نے مزدوروں کی تحریک شروع کی۔ گرجاگھر کی تعلیمات سے متاثر ہوتے ہوئے اُنہوں نے “چلی تجارتی یونین ایسوسیشن” قائم کی، تاکہ اِس کے ذریعے وہ اپنے ملک کے مزدوروں کی انجمن کی رہنمائی اور اُنہیں فوری طور پر مسیحی تعلیم کے بارے میں بتایا جائے۔ اُن کی خاطر اُنہوں نے تین کتابیں لکھیں جن کا نام؛ معاشرتی انسانیت، مسیحیوں کے معاشرتی حکم، اور تجارتی انجمن تھا۔ اُنہوں نے “فالانگے ناسیونل” ( جدید مسیحی ڈیموکریٹک پارٹی کی پیش قدمی ) نامی تنظیم کے معترف کے طور پر خدمت کی۔ رومن کیتھولک چرچ کے ساتھ تعلق رکھتے ہوئے اُنہوں نے خود سے مزدوروں کے مسائل پر متعدد مضامین اور کتابیں شائع کیں۔
گہری رحانیت کے طور پر، دانشورانہ عکاسی اور عملی کام کو ملاتے ہوئے عُرتادو کارکنوں اور نوجوانوں کے لئے بے حد محنت کر رہے تھے۔ خوش اخلاق اور خوشگوار شخص ہوتے ہوئے وہ ایک دلچسپ شخصیت تھے جس کی وجہ سے کئی لوگ مسیح اور گرجاگھر کے قریب آئے، جن میں نوجوانوں، بوڑھوں، دانشور اور دستی کارکن شامل تھے۔
1952 میں، ایک دن عُرتادو کو شدید درد شروع ہو گئی اور اُنہیں ہسپتال پہنچایا گیا۔ اُنہیں کینسر کے ساتھ تشخیص کیا گیا۔ دن بہ دن میڈیا نے پورے شہر کو عُرتادو کی صحت کی صورتِ حال سے آگاہ کر دیا۔ وہ اپنی موت سے پہلے ایک قومی ہیرو بن گئے تھے۔ اپنے ایمان میں سچے ہوتے ہوئے اُنہوں نے اپنی پوری عمر منادی کی، اُنہوں نے خوشی سے تمام ناگزیر باتوں کو برداشت کیا۔ اپنی جنگ لڑنے کے بعد وہ 18 اگست 1952 میں بیماری سے سنتیاگو میں وفات پا گئے۔
16 اکتوبر 1994 میں پوپ جان پال دوئم نے فادر عُرتادو کو مقدس قرار دیا اور 23 اکتوبر 2005 میں پوپ بینیڈکٹ سولہویں نے اُنہیں تعظیم پیش کی۔
البیرتو عُرتادو کروچاگا اپنے ملک چلی کے ایک مشہور اور بہت محبت کرنے والے شخص تھے۔ اُن کی آخری مقبولیت کی وجہ سینٹ پیٹر کی جگہ میں موجودگی تھی، عُرتادو کی تعظیم کے دن ملک کے عالیٰ حُکام جن میں ملک کا صدر اور چلی کے کئی اُونچے سیاستدان جو کہ باپ عُرتادو کے شاگرد تھے جب وہ اُنہیں اسکول میں پڑھایا کرتے تھے وہ اِس میں شامل ہوئے، اُن کی سربراہی میں چلی کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد باہر نکلی تھی۔
”عوگردا کرِستو” جو کہ اِنہوں نے ہی قائم کی تھی ابھی تک موجود ہے اور سماجی انصاف کے لئے لڑائی کرتے ہوئے، یہ چلی کے بڑے چیریٹی گروپوں میں شامل ہوتی ہے۔
البیرتو عُرتادو یونیورسٹی، جو کہ سنتیاگو میں موجود ہے اور ”مسیح کے معاشرے” کی طرف سے چلائی جا رہی ہے، جو کہ اپنا نام محفوظ رکھتی ہے، اور عصری تعلیم اور سماجی عمور میں اپنی میراث خود قائم کرتی ہے۔
سینٹ-البیرتو عُرتادو یہ کہا کرتے تھے؛ ”میں جانتا ہوں کہ ہر غریب آدمی، ہر اجنبی، ہر فقیر ایک مسیح ہے جو اپنے اُوپر ایک صلیب لے کر چلتا ہے، اور مسیحی ہوتے ہوئے، ہمیں اُس سے محبت اور اُس کی مدد کرنی چاہیے۔ ہمیں اُسے اپنا بھائی اور اپنی طرح ایک انسان سمجھتے ہوئے اُس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے۔ اگر ہم غریبوں اور بے گھر لوگوں کے لئے ایک محبت کی مہم شروع کریں گے، تو ہم بہت کم وقت میں اِن پریشان کن حالات کہ جن میں ہم فقیر لوگ دیکھتے ہیں، دروازوں کے پاس بچوں کو سویا دیکھتے ہیں، اور عورتوں کو اُن کے بچوں کے ساتھ جو اُن کے بازوؤں میں ہوتے ہیں، اِن سب پریشانیوں سے ہم نجات پا لیں گے”۔