July 27, 2024

English اردو

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک اور مسیحی کی تذلیل اور اس پر تشدّد

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک اور مسیحی کی تذلیل اور اس پر تشدّد - Catholic TV Urdu

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مسیحیوں کے ساتھ تعصّب، نا انصافی اور ان پر ظلم کوئی نئی بات نہیں ہے- ہر چند دن بعد ایک دل دہلا دینے والا حادثہ سامنے آتا ہے جس میں کسی مسیحی کی تذلیل کی جاتی ہے یا اس کو ایسا نقصان پہنچایا جاتا ہے جو کہ ناقابل تلافی ہوتا ہے- آج ایک اور ایسے ہی مسیحی پر ہوئے ظلم کا واقہ منظر عام پر آیا ہے جو کہ صوبہ پنجاب کے ننکانہ صاحب شہر سے تعلّق رکھتا ہے اور اس علاقہ کی پولیس میں صفائی کا کام کرتا ہے-

ہفتے والے دن جب متاثر مسیحی اپنے کام میں مصروف تھا تو پاس بیٹھے پولیس افسران بدتہذیب اور نازیبہ زبان میں فرانس کے صدر، صفیر اور وہاں کے مسیحی لوگوں کو گالیاں دے رہے تھے- اچانک وہ صفائی کر رہے مسیحی کو پاس بلاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کے تو بھی ہم مسلمانوں کے ساتھ اس مہم میں شریک ہو، ہم تیری ویڈیو بنائیں گے جس میں تو که کہ اگر فرانس کے صفیر کو پاکستان سے نا نکالا گیا تو ہم اس کی قبر پاکستان میں بنا دینگے، تو ان کو گالیاں دے اور ان پر لعنت بھیج- اس پر اس مسیحی نے جواب دیا کہ میں ایسا کچھ نہیں کر سکتا ہوں کیونکہ نہ میری کسی سے دشمنی ہے، نہ میری ایسی تربیت ہے اور نہ ہی مسیحیت مجھے ایسا کرنا سکھاتی ہے-

اس کا ایماندار جواب ان پولیس افسران کا خون کھولانے کے لئے کافی تھا- انہونے اسے کنجر، کافر، کتا اور چوڑا کہنا شروع کر دیا- اسے کہا کہ فرانس والوں نے ہمارے نبی کی شان میں گستاخی کی ہے اور اگر تو ان کے خلاف نہیں بولیگا تو اس کا مطلب ہے کے تو بھی ہمارے نبی کی عزت نہیں کرتا ہے اور تو بھی گستاخ رسول ہے- وہ معصوم مسیحی کوئی غلطی نہ ہونے کے باوجود سب کچھ سنتا اور برداشت کرتا رہا اور پھر اپنے کام میں لگ گیا- چند گھنٹوں بعد افطاری کے وقت جب ایک پولیس افسر گلاس میں پانی پی رہا تھا تو دوسرے افسر نے اسے بتایا کہ اس گلاس میں تو اس چوڑے مسیحی نے پانی پیا تھا- یہ سن کر اس افسر نے اس مسیحی کو بلا کر اسے تهپڑ مارنا شروع کر دئے اور دوسرے نے اس پر پستول تان دی- ایک تیسرا افسر فوراً استرا لے آیا اور اس کی بھویں اور اس کے سر کے بال بے رحمی سے کاٹ دئے صرف اس وجہ سے کہ وہ ایک مسیحی ہے جس نے مسلمانوں کے گلاس میں غلطی سے پانی پی لیا تھا اور وہ فرانس کے خلاف ان کی جاہلانہ مہم کا حصّہ نہیں بننا چاہتا تھا- جب اس مسیحی کے سر پر استرا چلایا جا رہا تھا تو ساتھ ساتھ اسے فرانس والوں کا دلال اور فرانس والوں کا کتا جیسے الفاظ کہ کر شرمندہ بھی کیا جا رہا تھا اور اس پر جسمانی تشدّد بھی کیا جا رہا تھا-

اس لاچار اور غریب مسیحی نے ان کی منّتیں کیں کہ اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور اسے جانے دیا جاۓ- ان پولیس افسران کا ارادہ اس مسیحی کو توہین رسالت کے نام پر مارنے کا تھا لیکن اس کی بہت منّتوں پر انہوں نے اسے صرف اس شرط پر جانے دیا کہ وہ اس بات کا ذکر کسی سے نہیں کریگا- وہ اس وقت تو وہاں سے جان بچا کر نکل آیا لیکن جس تشدد اور تذلیل کا سامنا وہ کر چکا ہے اس کے بعد اس میں اتنی ہمّت نہیں ہے کہ وہ دوبارہ ان جاہل انتہا پسند پولیس افسران کے ساتھ کام کر سکے- اسے ڈر ہے کہ وہ لوگ اس پر کوئی بھی جھوٹا الزام لگا کر اسے مار دینگے جو کہ پاکستان میں ایک بہت عام بات ہے اور جان کا نقصان اس کے بچوں کا مستقبل تباہ کر دیگا اس لئے اس نے اپنی نوکری چھوڑنا، اپنا گھر بار چھوڑنا اور اس شہر سے کہیں دور چلے جانا ہی بہتر سمجھا-

ہمارا وہ مسیحی بھائی ابھی بھی ڈر اور صدمے کی حالت میں ہے، ایک طرف نوکری نہ ہونے اور بچوں کے مستقبل کی فکر ہے تو دوسری طرف ہر لمحہ وہ تذلیل یاد آتی ہے جس کا اس نے بنا کسی قصور کے سامنا کیا- وہ شکایت کرے بھی تو کس سے؟ کیا پانچ مسلمانوں کے سامنے ایک کافر کی گواہی کو مانا جاۓ گا؟ اور اگر وہ کسی طرح کا ایکشن لیتا بھی ہے تو کیا اسے زندہ اور سہی سلامت چھوڑا جاۓ گا؟ ایک بار پھر ایک مسیحی پر ظلم ہوآ، ایک بار پھر ایک مسیحی کو شرمندہ کیا گیا اور ایک بار پھر ہم ان سوالات کے ساتھ اندھیری گلی میں آ کر کھڈے ہو گئے کہ کیا ایک مسیحی کو پاکستان کی سر زمین پر کبھی انصاف ملیگا، کیا مسیحیوں کی ایسے ہی تذلیل ہوتی رہیگی صرف اس وجہ سے کہ وہ اقلیت ہیں، اور کیا مسیحیوں کو کبھی ایک ایسے ملک میں برابری کے حقوق ملینگے جو دن ب دن اسلام کے نام پر تشدّد پسندی اور انتہا پسندی کی راہ پر آگے بڑھتا جا رہا ہے؟

کچھ عرصہ پہلے تک لگتا تھا کے مذہب کے نام پر آگ لگانے والے، شور مچانے والے اور فرقہ پرستی پھیلانے والے صرف مولوی حضرات ہوتے ہیں لیکن آج اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مذہبی انتہا پسندی پاکستان کے معاشرے کے ہر تبکے میں کوٹ کوٹ کر بھر چکی ہے- اگر ہم اپنی یادداشت کو تازہ کریں تو ہمیں وہ منظر یاد آۓ گا کہ کس طرح یونیورسٹی کے طلبہ نے مل کر ایک بھیڑ کی شکل میں مشال خان کا بے رحمی سے قتل کیا تھا- اسے یہ موقع بھی نہیں دیا کہ وہ اپنی بے گناہی ثابت کر سکے- جب تک پولیس اور اس کے ماں باپ منظر جرائم پر پہنچے وہ ایک بے جان لاش میں تبدیل ہو چکا تھا-

یاد کیجئے کیسے پڑھے لکھے نوجوان آسیہ بی بی کے خون کے پیاسے ہو گئے تھے- چند ماہ قبل کراچی کے ایک ہسپتال میں کس طرح پڑھی لکھی نرسوں نے تابیتا گل نام کی ایک مسیحی نرس پر توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگا کر اس پر کھلے عام تشدّد کیا تھا- چند روز قبل ایک اور ایسا ہی واقعہ فیصل آباد میں پیش آیا جب دو مسیحی نرسوں پر قرآن کی آیات کی بے حرمتی کا الزام لگا کر ان کو پیٹا گیا، ان کے اپنے ہی ساتھیوں نے جو کہ میڈیکل کے شعبہ سے تعلّق رکھتے ہیں ان پر قاتلانہ حملہ کیا اور ہسپتال کے باہر اللہ اکبر کے نارے لگاتے ہوئے ایک بڑی بھیڑ جمعہ ہو گئی جو صرف یہ خواہش رکھتی تھی کہ ان کافروں کو ان کے حوالے کر دیا جائے تاکہ وہ بنا کسی ثبوت، بنا کسی عدالت اور بنا کسی شواہد کے ان کو زندہ جلا سکیں-

چند ماہ قبل پیشاور میں توہین رسالت کے ایک احمدی مسلمان ملزم کو عدالت میں جج اور وکیلوں کی موجودگی میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا اور گولی مارنے والے شخص کو غازی اور قوم کا ہیرو بنا کر اسے پھولوں کے ہار چڑھاۓ گۓ ٹھیک اس طرح جیسے ممتاز قادری کے مزار بنا دئے گۓ باوجود اس کے کہ اس نے گورنر سلمان تاثیر کا دن دہاڑے قتل کیا تھا- اس ملک میں کون محفوظ ہیں جہاں قاتلوں کو ہار پہناۓ جاتے ہیں، جہاں اقلیتوں کو جان سے مارنا فخر کی بات سمجھی جاتی ہے، جہاں نوجوان نسل ڈاکٹر یا انجینیر بننے کے بجاۓ کافروں کا قاتل بننے میں مصروف ہے؟

ایک آخری مثال لیتے ہیں تحریک لبّیک کے حالیہ مظاہروں کی جنہوں نے پورے پاکستان کو نہ صرف معاشی نقصان پہنچایا بلکہ اس کی تھوڑی سی رہی سہی بین الاقوامی امیج کو بھی تہس نہس کر دیا- لیکن ان مظاہروں کی سب سے دلچسپ یا خطرناک بات یہ تھی کے ان میں حصّہ لینے والوں میں چھوٹے بچے، یونیورسٹی کے طلبہ، ڈاکٹر، وقیل اور ہر پڑھے لکھے عزت دار شعبہ سے تعلّق رکھنے والے لوگ تھے اور یہ دکھاتا ہے کے مذہبی انتہا پسندی پاکستان کی رگ رگ میں داخل ہو چکی ہے-

اسلام کے نام پر کسی پر بھی الزام لگا دینا، اس پر تشدّد کرنا، اسے کافر قرار دینا اور اس کی جان لے لینا ایک بہت آسان اوزار بن چکا ہے کیونکہ جہاں بات آتی ہے توہین رسالت کی وہاں پاکستان کا ہر مسلمان چاہے وہ انپڑھ ہو یا پڑھا لکھا اس کے مذہبی جذبات جاگ جاتے ہیں اور اسے لگتا ہے کہ ایک کافر کی جان لینا اس کا پیدائشی حق ہے- اس کی آنکھوں پر بندھی پٹی اسے یہ دیکھنے پر مجبور نہیں کرتی کہ اس ملک میں ادارے، عدلیہ اور قانون بھی موجود ہیں- یہ ہے نیا پاکستان جو اقلیتوں کے لئے ہر روز ایک نئی اذیت بنتا جا رہا ہے-

RELATED ARTICLES